Thursday, December 8, 2022
Iqrar Ul Hassan in 2010 my first meeting with Jameel Farooqui
آج سے بارہ سال پہلے یعنی 2010 میں جمیل فاروقی سے میری پہلی ملاقات آرٹس کونسل کراچی کے ایک مشاعرے میں ہوئی، تب جمیل سڑک کنارے کے نام سے سرِعام کی طرز کا ایک پروگرام کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے کئیریر کے لئے کراچی میں اکیلے رہتے ہیں، میں کراچی آنے سے پہلے دبئی میں
فیملی سے دور تنہائی کا دُکھ جھیل چکا تھا سو میں اور میری بیگم جمیل کو اپنی گاڑی میں اپنے گھر لے آئے کیونکہ تب تک جمیل فاروقی کے پاس اپنی سواری نہیں تھی۔ ہم نے اپنی حیثیت کے مطابق ان کی بھر پور خدمت کی تاکہ انہیں لگے کہ کراچی میں ان کی اپنی ایک فیملی ہے
اور دبئی کے زمانے میں جو اکیلا پن میں نے محسوس کیا وہ انہیں محسوس نہ ہو۔ جاتے جاتے جمیل نے بتایا کہ انہیں جلد ہی ان کے دادا کی جائیداد میں سے چار ارب یا شاید چار کروڑ (رقم ٹھیک سے یاد نہیں) ملنے والے ہیں جس کے بعد ہم نے ان سے رابطہ نہیں کیا کہ کہیں انہیں ایسا نہ لگے
کہ ہم اُن چار ارب کے چکر میں ان سے تعلق کے خواہاں ہیں۔ اس واقعے کے چند ہی دن بعد جمیل فاروقی کا پروگرام سڑک کنارے بند ہو گیا, جبکہ یہی سرِعام کی مقبولیت کے ابتدائی ایام تھے۔ پھر کچھ ہی دن بعد میں نے غالباً اُن کی فیس بُک پر پروگرام سرِعام اور میرے حوالے سے انتہائی نامناسب
اور بے بنیاد تنقید دیکھی، مجھے حیرت ہوئی کہ یہ وہی شخص ہے جسے میں بہت مان اور خلوص کے ساتھ اپنے گھر لے کر آیا تھا، اپنی فیملی کا حصہ بنایا تھا اور ان کے پروگرام اور کام کی کھُل کر تعریف کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف پلیٹ فارمز پر اور مختلف مواقع پر
مجھ پر تنقید کا کوئی موقع جانے نہیں دیا۔ وجہ کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ خان صاحب کے ساتھ ان کی تصویر پر ٹوئیٹ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ خان صاحب کے ساتھ پر خلوص لوگ اکھٹے ہونے چاہیں۔۔۔ باقی ممکن ہے ان بارہ برسوں میں جمیل فاروقی کی شخصیت میں کوئی مثبت تبدیلی آ گئی ہو،
لہٰذا بارہ سال پہلے کی طرح میں انہیں ایک بار پھر اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دیتا ہوں، میری ٹوئیٹ کی وجہ سے اگر ان کی دل آزاری ہوئی ہو تو شاید مل بیٹھ کر اس کا ازالہ ہو جائے۔
باقی عمران ریاض خان صاحب کے حوالے سے بھی میرے ذاتی تجربے اور تلخ و شیریں تعلقات کی ایسی ہی ایک کہانی ہے جو آج ہی کسی وقت شئیر کروں گا۔
Subscribe to:
Posts
(
Atom
)